gfhfdg

gfhfdg

153 1 3

ایک روز سیٹھ صاحب سینٹ کے اجلاس کے لئے اسلام آباد آئے تو ہمارے دفتر کا چکر بھی لگا۔ لیکن اس مرتبہ وہ اکیلے نہیں تھے۔ انکے ساتھ انکی اہلیہ ، اہلیہ کا بھائی عامر اور انکے دوست بیرسٹر عابد علی بھی تھے۔ آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے انہوں نے مجھے ڈیپارٹمنٹ ہیڈز کی میٹنگ کے انتظامات کرنے کا کہہ دیا تھا۔ میٹنگ شروع ہوئی تو سیٹھ صاحب نے اپنی اہلیہ کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ وہ کمپنی کی مینجنگ پارٹنر ہیں اور ڈائریکٹریس کی حیثیت میں کام کریں گی۔ ساتھ ہی اپنے سالے کا تعارف کرواتے ہوئے ہمیں بس یہ بتایا کہ وہ آج سے کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر ہیں۔ سیٹھ صاحب چونکہ خود زیادہ تر شہر اور بعض اوقات ملک سے باہر ہوتےہیں، اس لئے انکے گھر کے یہ دو معتمد و قابلِ بھروسہ افراد انکی اس کمپنی کے ذمہ دار ہوں گے۔ بیرسٹر عابد علی کے پاس کمپنی ملازمین کے کنٹریکٹس تھے۔ انکو نوکری پکی ہونے کی نویدِ مسرت سنا کر جلدی جلدی ان معاہدوں پر دستخط لے لئے گئے اور انکی فائلوں کی نذر کردئے گئے۔ وقت ملنے پر جب میں نے جب یہ عہد نامہ پڑھا تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اتنی سخت شرائط کہ خدا کی پناہ۔ ملازمت کیا تھی؟ گویا کسی ظالم بادشاہ کی بیعت تھی جس میں دائیں بائیں دیکھنے پر بھی سزا لکھی ہوئی تھی۔ یہ نیا شوشا کمپنی کے ملازمین کے لئے بالعموم اور میرے لئے بالخصوص کسی جھٹکے سے کم نہ تھا۔ اس کمپنی کو وجود میں آئے تقریباً آٹھ ماہ ہوچلے تھے اور ہم سب اسکواپنا خونِ جگر پلا کر پروان چڑھا رہے تھے۔ اس کمپنی کو نہ کسی ڈائریکٹریس کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی سی او او کی۔ لیکن بلاوجہ یہ پتھر ہمارے سروں پر برسا دئے گئے تھے۔ کیوں؟ وہ اس لئے کہ سیٹھ صاحب تو کمپنی کے مالک اور سرمایہ دار تھے۔ یہ بات سمجھ میں آتی تھی۔ لیکن ان دو افراد کا کردار زبردستی کا تھا۔ بیگم صاحبہ ایک فیشن زدہ خاتون تھیں جنکا کاروبار اور وہ بھی آئی ٹی سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ دوسرے انکا بھائی عامر۔ایک نمبر کا نکما اور جاہل انسان۔ وہ اپنی تھوڑی سی زمین کے علاوہ سیٹھ صاحب کی پنجاب کی زمینوں اور فیکٹریوں کو دیکھتا تھا۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو وہ سیٹھ صاحب کا ایک چھوٹے درجے کا منشی تھا۔ سیٹھ صاحب کو بھی اسکی اوقات کا اندازہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اسکو اپنے دوسرے کاروبار سے ہٹا کر سسرال کو خوش کرنے اور اسکے منہ میں چسنی دینے کی نیت سے اپنے نئے کاروبار کا سی او او لگا دیا تھا۔ ہمارے لئے دکھ کی بات یہ تھی کہ اسکا بھی آئی ٹی سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہ تھا لیکن وہ ہم پر باس بن کر سوار ہو چکا تھا۔

اگلے دن سے ہمارے دو نئے باسز نے دفتر آنا شروع کردیا اور یہی ہم سبکی ملازمتی اور ذاتی زندگیوں میں ہیجان کا سبب بنا۔ بیگم صاحبہ تو چونکہ بیگم صاحبہ تھیں۔ انہیں دفتر کی کیا ضرورت! سو چند دن بعد بور ہوکر انہوں نے تو آنا چھوڑ دیا۔ لیکن عامر صاحب۔۔۔ وہ تو ہمارے اعصاب پر سوار ہوچکاتھا۔ آئی ٹی کی اے بی سی سے بھی نابلد انسان ہر کام میں ٹانگ اڑانے لگا۔ میرے لئے یہ بات کسی عذاب سے کم نہ تھی۔ اپنے کام سے متعلق چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے کے لئے بھی مجھے عامر صاحب کے حضور ہاتھ باندھ کر کھڑا رہنا پڑتا اور وہ کئی کئی دن تک منظوری نہ دیتے۔ سوفٹ وئیر بنانا اور اسکو چلانا چونکہ ہمارا کام تھا اس لئے ہمیں اس کام کے لئے مکمل آزادی چاہئے تھی لیکن عامر صاحب اب خود سیٹھ بن چکے

hylj89o7itrgqeioyjrhgqeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeee

jiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiv

hhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhh