Q

Q

150 3 4

دوسری طرف موصوف کی اپنی عیاشی کا یہ عالم تھا کہ جناب نے بیرونِ ملک آئی ٹی کورسز اور کانفرنسز ڈھونڈنا شروع کردیں۔ شروع شروع میں کوالالمپور اور بنکاک کو اپنی منزل بنایا۔ خوب جی بھر کے سیر سپاٹا کیا۔ بعد ازاں لندن، پراگ اور استنبول کی شامت آئی۔ اس مرتبہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں انکی اپنی رکھی ہوئی ایک عزیزہ محترمہ شازیہ صاحبہ انکے ہمراہ رہیں۔شازیہ صاحبہ وہ کہ جنہیں ایچ آر کی الف بے بھی نہ معلوم تھی اور دوسرے آئی ٹی کے کورسز اور سیمینارز۔۔۔ کچھ سمجھ سے بالاتر معاملہ تھا ، لیکن اندھیر نگری کے چوپٹ راج میں ایسا ہونا ناممکن نہیں۔ بلکہ نہ ہو تو مقامِ حیرت ہو۔ پھر کیا تھا؟ نواب صاحب کی جیسے لاٹری کھل گئی ہو۔ نیا بزنس لانے اور ٹریننگز کے نام پر انہوں نے جیسے ایک نئی ٹریول ایجنسی کھول لی ہو۔ لیکن مجال ہے جو کوئی ایک لفظ بھی نیا سیکھا ہو یا ایک ڈالر کا بھی بزنس کمپنی کو لاکے دیا ہو۔ !

کچھ عرصہ مزید گزرا اور دنیا بھر کی معیشت رو بہ زوال ہونا شروع ہوئی۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی کمپنیاں بند ہونا شروع ہوگئیں اور بے روزگاری کی لہر نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہماری کمپنی اس صورتِ حال میں کسی کھاتے میں نہ آتی تھی۔ نہ یہ کوئی ہزاروں بھاری بھرکم تنخواہوں والے ملازمین کی بین الاقوامی کمپنی تھی اور نہ ہی یورپ یا امریکہ کی بڑی بڑی اسٹاک اکیسچینجز میں اسکے شئیر تھے۔ لیکن جاہلِ مطلق سی او او نے دوسروں کی دیکھا دیکھی بلاوجہ کمپنی سے لوگ نکالنا شروع کردئے۔ تمام ملازمین کی فہرست اپنے سامنے رکھی اور جہاں سرخ ہائی لائٹر چلا، اس اس بیچارے کو ٹرمینیشن لیٹر تھما کر رخصت کردیا۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ اس بندےکی صلاحیتوں کی کمپنی کو اشد ضرورت ہے۔ وہ منظر بھی یادداشت میں اب تک ثبت ہے جب مرتضےٰ کو ٹرمینیشن لیٹر تھمایا گیا تو ہ بجھ سا گیا تھا۔ اگلے روز کاشف کے زریعے معلوم ہوا کہ رات کو اسے دل کاوورہ پڑا تھا۔ ہم سب ہی دوست اسکی مزاج پرسی کے لئے گئے۔ کاشف ( جو مرتضیٰ کا پڑوسی بھی تھا) نے بتایا کہ مرتضٰی گھر کا واحد کفیل ہے۔ اسکے والد خود گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں اور حال ہی میں اسکے بیٹے نے اسکول جانا شروع کیا ہے۔ نوکری کا اچانک سے چھوٹ جانا اسکے لئے کسی حادثے سے کم نہ تھا۔ غریب گھرانے کا شریف آدمی ہے، اس لئے یہ صدمہ برداشت نہ کرسکا۔

دفتر جاکر میں نے عامر صاحب کو مرتضیٰ کے بارے میں بتاتے ہوئے احتجاج کیا اور اسکی نوکری بحال کرنے کی درخواست کی تو اس پر بھی اس سنگدل شخص پر زرااثر نہ ہوا۔ اس نے سگرٹ سلگاتے ہوئے مجھے اپنے کام سے کام رکھنے کی تنبیہہ کی اور کہا کہ ہم نے منافع کمانے کے لئے کمپنی کھولی ہے فلاح و بہبود کے لئے نہیں۔ مجھے مشورہ دیتے ہوئے اس نے یہ طنز بھی کیا کہ اگر میرے دل میں غریبوں کے لئے اتنا ہی درد ہے تو مجھے بھی مرتضیٰ کے غم میں شریک ہوکر نوکری چھوڑ دینا چایئے ۔ مزید مشورہ یہ دیا کہ میرے لئے ایدھی سینٹر مناسب رہے گا جہاں میں دل کھول کے غریبوں کی مدد کیا کروں گا۔

ہماری کمپنی میں ایک طبقہ وہ بھی تھا جنہیں کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ بس صبح سویرے اپنے کام پرآتے۔ جیسے کہا جاتا، ویسے کرتے۔ نہ ہاں، نہ ہوں۔ شام کو کام لپیٹا اور اپنے گھر واپس۔ روبوٹ نما یہ طبقہ تقریباً ہر جگہ ہی پایا جاتا ہے اور اگر غلط نہ کہا جائے تو یہی خاموش اکثریت ہوتی ہے جسکی وجہ سے ظالم کو ظلم کرنے اور مظلوم

شام کو کام لپیٹا اور اپنے گھر واپس۔ روبوٹ نما یہ طبقہ تقریباً ہر جگہ ہی پایا جاتا ہے اور اگر غلط نہ کہا جائے تو یہی خاموش اکثریت ہوتی ہے جسکی وجہ سے ظالم کو ظلم کرنے اور مظلوم

addddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddddd

sssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssss

TRYEYTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTTT