New

New

162 1 4

سلیم احمد خان المعروف سیٹھ صاحب ہماری کمپنی کے مالک تھے۔ “سلیم احمد خان” انکا والدین کی جانب سے اور “سیٹھ صاحب” ہم ملازمین کی جانب سے رکھا گیا نام تھا۔ سیٹھ صاحب میرے آئیڈئیل تھے۔ خوش لباس، منطم، نفیس ، معاملہ فہم اور عقاب کی سی نگاہ رکھنے والا شخص۔کاغذوں کے ڈھیر میں اس شخص کی نگاہ وہیں جاکر ٹھہرتی جہاں غلطی سے کوئی معمولی غلطی رہ گئی ہو۔ جدی پشتی طور پر زمیندار، صنعتکار اور سرمایہ دار تھے۔ انکا اوڑھنا بچھونا صرف دولت تھا۔ جس چیز اور کام میں نمو پاتی ہوئی دولت نظر آتی، وہ جھٹ سے اس میں ہاتھ ڈال دیتے۔ انکے مختلف کاروبار پورے ملک کے علاوہ دنیا کے اور دوسرے ممالک میں بھی پھیلے ہوئے تھے۔شوگر، ٹیسکٹائل اور لیدر کی فیکٹریوں کے علاوہ مختلف غیر ملکی مصنوعات مثلاً ملبوسات اور جوتوں وغیرہ کی فرینچائز فیکٹریاں بھی تھیں۔ ملک بھر کے بڑے شہروں میں چائنیز ریسٹورنٹس کی چین الگ۔میرا ان سے تعارف ملازمتوں کا ایک اشتہار بنا جو انکی ہمارے شہر میں ایک نوزائیدہ کمپنی کے لئے تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری ابھر رہی تھی۔ چنانچہ سلیم صاحب نے بھی اس بہنے والی نئی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ٹھانی ۔ اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے یورپ اور امریکہ کی چند کمپنیوں سے انکے سوفٹ وئیر کے ٹھیکے اٹھا لئے اور پاکستان میں ایک کمپنی کی بنیاد ڈال کر اخبار میں پرکشش اشتہار چھپوا دیا۔ خدا کے فضل و کرم سے مجھے بہت کم عمر اور تجربے کے باوجود پروجیکٹ ڈائریکٹر کی نوکری مل گئی اور میں سیٹھ صاحب کے بعد اس کمپنی کا کرتا دھرتا بن گیا۔ یہ چونکہ سیٹھ صاحب کا میدان نہ تھا اور میں اس میدان کا چھوٹا موٹا ماہر تھا، اس لئے وہ اس کمپنی کو چلانے کے لئے مجھ پر بھرپور بھروسہ کرتے ہوئے تمام کام مجھے سونپ کر اپنی دیگر مصروفیات میں لگ گئے۔ انہی دنوں انکا سیاسی حلقوں میں بھی اٹھنا بیٹھنا چل رہا تھا۔ کچھ دنوں بعد خبر ملی کہ سلیم احمد خان صاحب اب سینیٹرسلیم احمد خان ہو گئے ہیں۔

میں نے اپنے مقدور بھر تجربے کی بنیاد پر سیٹھ صاحب کی آئی ٹی کمپنی کو کھڑا کردیا۔ بلڈنگ کرائے پر لینے سے ملازمین رکھنے اور پروکیورمینٹ تک تمام کام میں نے خود کئے۔میرےمعمولی تجربے اور محدود نظر میں ایک سو بیس ملازمین پر مشتمل یہ ایک بہت بڑی نہ سہی، کوئی چھوٹی کمپنی بھی نہ تھی۔ لیکن سیٹھ صاحب کی کاروباری سلطنت میں اسکا وجود کاغذ پر ایک نقطے کی مانند تھا۔ میری ان تمام کاوشوں کا صلہ مجھے سیٹھ صاحب کی طرف سے گاڑی اور تنخواہ میں اضافے کی صورت میں ملا اور میں اپنی کمپنی کا واحد مستقل ملازم ہوگیا۔ میں بھی دل و جان سے اپنے علم اور تجربے کو کام میں لا کر شبانہ روز محنت کررہا تھا۔ دوسری طرف سیٹھ صاحب کی پر کشش شخصیت اور اپنا مال بیچنے کی بے پناہ اہلیت انہیں دنیا بھر سے سوفٹ وئیر کاکام دلوا رہے تھے۔ یعنی سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے سیٹھ صاحب اکیلے ہی چلا رہے تھے۔ سیٹھ صاحب زیادہ تر سفر میں رہتے اور ہمارے والے دفتر میں انکا آنا کم کم ہی ہوتا تھا۔ دفتر کے ملازمین بھی زیادہ ترنوجوان تھے جو مکمل استعداد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ الغرض سب اپنے اپنے مقام پر خوش تھے کہ اچانک جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو۔

;lllllllllllllllllllll/jiugyfhhgtrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrr44444444444444444444444rrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrr13\5

jjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjjj

wrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrr

hyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyyhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhhh777777777777777